کراچی: صوبے بھر میں گٹکا بنانے اور اس کی فروخت پر پابندی سے گٹکا کھانے والے افراد سخت بے چینی اور پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں اور نہ صرف گٹکے کے حصول کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہیں بلکہ نہ ملنے کے باعث اپنی جان بھی دینے سے گریز کرتے نظر نہیں آتے۔سندھ کے ایک چھوٹے قصبے رابو اوتھار میں جہاں 26 سالہ ارس اوتھار نے گٹکا نہ ملنے کے باعث خودکشی کرلی۔ اہل خانہ کے مطابق ارس اوتھار کے بھائی کے پاس گٹکا موجود تھا مگر اس نے ارس کو دینے سے انکار کردیا جس پر غصے میں آکر ارس نے کیڑے مار دوا پی لی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی انتظامیہ عدالتی احکامات کے بعد صوبے بھر میں گٹکا بنانے اور اس کی فروخت روکنے کے حوالے سے کافی سرگرم نظر آتی ہے مگر وہ لوگ جو برسوں سے گٹکا اور دیگر نشہ آور اشیا استعمال کرتے آرہے ہیں تو اچانک گٹکا بند کرنے کے باعث ایسے افراد کا کیا بنے گا؟دوسری جانب انتظامیہ کی کوششوں کے باوجود شہروں اور دیگر علاقوں میں گٹکا کی فروخت چوری چھپے جاری ہے تاہم اندرون سندھ کے علاقوں میں اس کا حصول مشکل تر ہوگیا ہے جس کے اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ گٹکا کی زیادہ تر تیاری کراچی شہر میں کی جاتی ہے جہاں سے اسے مختلف ذرائع سے اسمگل کرکے اندرون سندھ کے دیگر شہروں اور دیہات تک پہنچایا جاتا ہے، تاہم نئی پابندی کے بعد اندرون سندھ کے علاقوں تک گٹکا پہنچانا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔سینئر صحافی حنیف منجھوٹی نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گٹکا پر پابندی نے خاص طور پر ٹھٹھہ اور سجاول میں رہنے والے افراد کو زیادہ متاثر کیا ہے تاہم اس کے باوجود کچھ با اثر افراد اور ڈیلر مل کران علاقوں میں گٹکا فروخت کررہے ہیں۔دوسری جانب سجاول میں ایک پان فروش احمد علی کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ برسوں میں گٹکا کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کابننانا اور فروخت کرناایک منافع بخش کاروبار بن گیا تھا، عدالت کی جانب سے پابندی سے قبل گٹکا کسی بھی پان فروش سے آسانی سے مل جاتا تھا تاہم اس کاروبار میں بے پناہ منافع کو دیکھتے ہوئے صرف گٹکا فروخت کرنے کے علیحدہ کھوکھے بھی کھل گئے تھے۔احمد علی نے مزید بتایا کہ جو لوگ پان چھوڑ کو گٹکا کھانا شروع کرتے ہیں وہ بس اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں یہ ایسا نشہ ہے۔